Sindh Taas Agreement 1960 : The Indus Waters Treaty in URDU and English

sindh taas agreement 1960 سندھ طاس معاہدہ

The Sindh Taas Agreement 1960, also called Indus Waters Treaty , was signed between India and Pakistan in 1960, with the help of the World Bank, to fairly divide the waters of the Indus River system.

1. Rivers Covered in Sindh Taas Agreement 1960

The treaty covers six rivers of the Indus River system:

  • Eastern Rivers (given to India):

    • Ravi

    • Beas

    • Sutlej

  • Western Rivers (given to Pakistan):

    • Indus

    • Jhelum

    • Chenab

2. Division of Water Rights

  • India has the right to use almost all the water from the Eastern Rivers.

  • Pakistan gets the major share of water from the Western Rivers.

  • India can use Western Rivers in a limited way (non-consumptive use like hydropower, irrigation, etc.), but cannot interfere with the flow significantly.

3. India’s Limited Use of Western Rivers

India can:

  • Build run-of-the-river hydroelectric projects (which do not store water).

  • Use water for agriculture and domestic use, under certain rules.

India cannot:

  • Build large storage dams on Western Rivers.

  • Reduce or divert water flow to Pakistan.

4. Role of the World Bank

  • The World Bank helped both countries create the agreement and is also a guarantor.

  • It acts as a mediator if disputes arise.

5. Dispute Resolution Mechanism in Indus Waters Treaty, 1960

If there is a disagreement:

  • First, it goes to a Permanent Indus Commission (with members from both countries).

  • If not resolved, it goes to a neutral expert or the International Court of Arbitration.

6. Ongoing Concerns & Challenges

  • Pakistan often accuses India of violating the treaty by building dams in Indian-administered Kashmir.

  • India says its projects follow treaty rules and are only for hydropower, not water storage.

  • Political tensions sometimes raise fears about the treaty breaking down, but it has survived wars and decades of hostility.

7. Treaty Status Today

  • The treaty is still active and considered one of the most successful water-sharing agreements in the world.

  • However, both sides have raised concerns in recent years, especially during times of conflict.

 

کے تمام اہم نکات سادہ اور آسان اردو میں (Indus Waters Treaty)

سندھ طاس معاہدہ – اہم نکات (Sindh Taas Agreement 1960)

سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ ہے جو 1960ء میں طے پایا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو منصفانہ اور پائیدار طریقے سے تقسیم کرنا تھا تاکہ دونوں ممالک میں پانی کے تنازعات سے بچا جا سکے۔ اس معاہدے میں عالمی بینک نے ضامن کا کردار ادا کیا۔

معاہدے میں شامل دریا
:سندھ طاس معاہدہ دریائے سندھ کے نظام سے تعلق رکھنے والے چھ دریاؤں پر لاگو ہوتا ہے
مشرقی دریا (بھارت کے لیے مختص): راوی، بیاس، ستلج
مغربی دریا (پاکستان کے لیے مختص): سندھ، جہلم، چناب

پانی کی تقسیم کا طریقہ کار
:معاہدے کے مطابق
– بھارت کو مشرقی دریاؤں کا تقریباً مکمل پانی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
– پاکستان کو مغربی دریاؤں کے پانی پر زیادہ حق حاصل ہے۔
– بھارت کو مغربی دریاؤں سے محدود پیمانے پر پانی کے استعمال کی اجازت ہے، مثلاً
– بجلی پیدا کرنے (run-of-the-river schemes)
– زراعت
– گھریلو استعمال
تاہم بھارت پانی کے قدرتی بہاؤ میں کوئی بڑی رکاوٹ یا تبدیلی نہیں کر سکتا۔

عالمی بینک کا کردار
:عالمی بینک نے اس معاہدے میں
– مذاکرات کی نگرانی کی
– تکنیکی معاونت فراہم کی
– معاہدے پر دستخط کے بعد بطور ضامن (guarantor) کردار ادا کیا
مزید یہ کہ عالمی بینک کسی تنازع کی صورت میں ثالثی کا انتظام بھی کرتا ہے۔

تنازعات اور ان کا حل
:معاہدے کے تحت اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہو تو
– پہلا مرحلہ: مستقل انڈس کمیشن میں بات چیت۔
– دوسرا مرحلہ: معاملہ غیر جانبدار ماہر یا بین الاقوامی ثالثی عدالت کو بھیجا جاتا ہے۔

حالیہ مسائل اور خدشات
– پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت کشمیر میں ڈیمز اور بجلی کے منصوبے بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
– پاکستان کو خدشہ ہے کہ ان منصوبوں سے مغربی دریاؤں میں اس کے حصے کا پانی متاثر ہو سکتا ہے۔
– بھارت ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور مؤقف اختیار کرتا ہے کہ اس کے تمام منصوبے معاہدے کے دائرہ کار میں ہیں اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے بجائے بہتے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔

معاہدے کی موجودہ حیثیت
اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد بار کشیدگیاں رہی ہیں، یہ معاہدہ اب بھی برقرار ہے اور دونوں ممالک اس پر عمل کر رہے ہیں۔
اسے دنیا کا ایک کامیاب بین الاقوامی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے، جو دہائیوں سے نافذ العمل ہے۔

نتیجہ
سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا میں پانی کی تقسیم سے متعلق ایک اہم اور کامیاب ماڈل ہے۔
اس نے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے مسائل کو بڑی حد تک قابو میں رکھا ہے۔
تاہم، سیاسی کشیدگی اور بڑھتی ہوئی آبی ضروریات اس معاہدے کے لیے ایک مستقل چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
معاہدے پر دیانتداری سے عمل درآمد اور باہمی اعتماد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

One thought on “Sindh Taas Agreement 1960 : The Indus Waters Treaty in URDU and English

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *